
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے کیس سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا پہلے اس پر تھوڑی بات کروں گا، ہمارا ملک تقریبا سارا سال حالت جنگ میں رہتا ہے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آرمی تنصیبات پر حملہ کیا گیا، اس ملک میں وزیر اعظم کو پھانسی دی گئی مگر تب بھی ایسا احتجاج نہیں ہوا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ماضی میں کسی سیاسی جماعت نے آرمی پر حملہ نہیں کیا تھا، 9 مئی کو دن تین بجے سے شام ٹک 39 جگہوں پر حملہ کیا گیا، جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی، ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی، اصغر خان تین یا ساڑھے تین سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی 9 مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا، 9 مئی کو ری ایکشن میں بھی اگر یہ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک ایک عام ملک نہیں ہے، جغرافیہ کی وجہ سے ہمیں کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کے حق کا بتائیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو تو اس پر بات کرنا ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ جناح ہاوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کاروائی بھی کی، تین اعلی فوجی افسران کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، بغیر پنشن ریٹائر ہونے والوں میں لیفٹیننٹ جنرل، برگیڈیئر،لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں، 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا فوج نے کسی افسر کیخلاف فوجداری کاروائی بھی کی ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجداری کاروائی تب ہوتی جب افسران نے جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی 9 مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کاروائی کیساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ کیا جناح ہاوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا ؟ اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس کو چیک کر کے بتاوں گا یہ کیسے ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا 9 مئی کو جو کچھ ہوا جرم کی نیت سے ہی ہوا ؟ نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی ؟ ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کر گیا ؟ حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا مگر ہوگیا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 9 مئی کو جو ہوا وہ جرم ہی تھا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، ہم نے 9 مئی واقعہ کے میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی، میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا، 9 مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے، 9 مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب شاید آپ کیلئے دینا ممکن نہ ہوں، جیسے کیا بغیر پنشن ریٹائر ہونے والا جنرل کور کمانڈر لاہور تھا ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی کور کمانڈر لاہور کو ہی بغیر پنشن ریٹائر کیا گیا۔
یا درہے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دینے کے کیخلاف حکومت نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔ وفاقی حکومت نے لارجر بینچ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔



