دنیا کے نقشے پر بعض واقعات محض خبروں کی صورت سامنے نہیں آتے بلکہ وہ اپنے ساتھ کئی سوال، کئی خدشات اور کئی تلخ حقیقتیں بھی لے کر آتے ہیں۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے معروف بونڈائی بیچ پر اتوار کے روز پیش آنے والا دہشت گردی کا واقعہ بھی ایسا ہی ایک سانحہ ہے، جسے اگر محض ایک سیکیورٹی حادثہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے تو یہ ہماری اجتماعی فہم کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب یہودیوں کی مذہبی تقریب ہنوکا جاری تھی اور ابتدائی اطلاعات کے مطابق 16 افراد جان سے گئے جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوئے۔ انسانی جانوں کے ضیاع پر کسی بھی قسم کا ابہام یا جواز ممکن نہیں، مگر اس سانحے کے بعد جو بیانیہ تشکیل دیا گیا، وہ خود ایک اور المیہ ہے۔
تحقیقات کے آغاز کے ساتھ ہی یہ بات سامنے آئی کہ اس واقعے میں ملوث باپ بیٹے، ساجد اکرم اور نوید اکرم، کا تعلق بھارت کے شہر حیدرآباد دکن سے ہے۔ ساجد اکرم کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک بظاہر معمول کی کہانی سامنے آتی ہے۔ ایک طالب علم، جو کامرس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میں 1998 میں آسٹریلیا منتقل ہوا، وہاں شادی کی، خاندان بسایا اور برسوں ایک خاموش زندگی گزارتا رہا۔ بھارتی پولیس کے مطابق اس کے خلاف بھارت میں کسی قسم کا کوئی مشتبہ یا انتہا پسندانہ ریکارڈ موجود نہیں تھا، حتیٰ کہ اس کے اہل خانہ بھی اس کی کسی شدت پسند سرگرمی سے لاعلم تھے۔ ان ستائیس برسوں میں وہ صرف چھ مرتبہ بھارت آیا اور والد کے انتقال پر بھی وطن واپس نہ لوٹا۔
یہ تمام تفصیلات اس لیے اہم ہیں کہ یہی وہ حقائق ہیں جنہیں نظر انداز کر کے ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی گئی۔ آسٹریلوی وزارت داخلہ کی تحقیقات میں جب یہ بات سامنے آئی کہ حملہ آوروں کا تعلق بھارت سے ہے اور انہیں کالعدم داعش سے جوڑا جا رہا ہے تو عالمی میڈیا کا رخ بدلنا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے برعکس، اسرائیلی اور بھارتی میڈیا نے ایک بار پھر وہی پرانی پٹری اختیار کی جس پر چلتے ہوئے ہر واقعے کو پاکستان اور مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا ردعمل اس پوری صورتِ حال کو مزید سیاسی رنگ دینے کا باعث بنا۔ انہوں نے اس واقعے کو یہودیوں کے خلاف کھلم کھلا دہشت گردی قرار دیا اور آسٹریلوی قیادت پر یہودی دشمنی کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا۔ نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ آسٹریلیا کی خاموشی نے اس حملے کی راہ ہموار کی، دراصل اس اسرائیلی پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت ہر واقعے کو اپنے سیاسی مفادات اور داخلی دباؤ سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ غزہ میں جاری انسانی المیے، عالمی تنقید اور داخلی سیاسی بحران کے پس منظر میں ایسے بیانات کسی جذباتی ردعمل سے زیادہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ محسوس ہوتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جب ابتدائی طور پر بھارتی اور اسرائیلی میڈیا نے اس واقعے کو مسلمانوں اور بالواسطہ طور پر پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی، تو بعد میں حقائق سامنے آنے پر لہجہ بدل گیا۔ ایک بھارتی اینکر کا یہ کہنا کہ دہشت گردی کا تعلق کسی ملک یا مذہب سے نہیں بلکہ ذہنیت سے ہوتا ہے، اپنی جگہ ایک درست بات ہے، مگر سوال یہ ہے کہ یہی اصول پاکستان یا مسلمانوں کے معاملے میں کیوں لاگو نہیں کیا جاتا؟ یہی وہ دوہرا معیار ہے جو فاشزم کی پہچان بنتا ہے۔
بھارت اور اسرائیل دونوں اس وقت فاشسٹ رجحانات کی واضح مثال بن چکے ہیں۔ بھارت میں ہندوتوا نظریے کے تحت مسلمان اقلیت کو منظم طریقے سے دیوار سے لگایا جا رہا ہے، جبکہ اسرائیل میں صیہونی ریاستی ڈھانچہ فلسطینیوں کے وجود کو ہی مسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ دونوں ریاستوں کی سیاست کا مشترکہ نکتہ ایک دشمن کا تصور گھڑنا ہے، اور اس دشمن کا نام اکثر مسلمان یا پاکستان ہوتا ہے۔ سڈنی کے واقعے نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا کہ جرم فرد کا ہوتا ہے، مگر سزا پوری قوم یا مذہب کو دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس سانحے کے بعد سب سے زیادہ تشویشناک پہلو بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کا مستقبل ہے۔ پہلے ہی وہاں مسلمان عدم تحفظ، نفرت انگیز تقاریر، ہجومی تشدد اور امتیازی قوانین کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے میں سڈنی جیسے واقعات ہندوتوا سوچ رکھنے والوں کے لیے ایک نیا ہتھیار بن جاتے ہیں، جس کے ذریعے یہ تاثر پھیلایا جاتا ہے کہ دہشت گردی مسلمانوں کی فطرت ہے۔ اس کا نتیجہ مزید گرفتاریوں، مزید نگرانی اور مزید سماجی دباؤ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
پاکستان کو بدنام کرنے کی روایت بھی اس واقعے میں پوری طرح دہرائی گئی۔ بغیر کسی ثبوت کے، بغیر کسی تعلق کے، پاکستان کو ایک بار پھر عالمی سطح پر دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض ریاستیں سچ کی بجائے بیانیے پر یقین رکھتی ہیں، اور وہ بیانیہ ہمیشہ اپنے سیاسی مفاد کے مطابق تشکیل دیا جاتا ہے۔
اس پورے منظرنامے میں افغانستان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ خطے میں عدم استحکام، جنگ اور انتہا پسندی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ افغانستان کی تاریخ غیر ملکی مداخلت، طویل جنگ اور ریاستی انہدام سے بھری پڑی ہے۔ مگر اس پیچیدہ حقیقت کو سادہ بیانیے میں سمیٹ کر “مسلم خطہ برابر دہشت گردی” کا تاثر دینا آسان سمجھا جاتا ہے۔
سڈنی کا واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ دہشت گردی سے زیادہ خطرناک چیز اس کا سیاسی استعمال ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع ایک المیہ ہے، مگر اس المیے کو بنیاد بنا کر نفرت، تعصب اور فاشزم کو فروغ دینا ایک اور جرم ہے۔ اگر واقعی دنیا دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو اسے قوموں اور مذاہب کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے اُن ذہنیتوں کا احتساب کرنا ہوگا جو نفرت کو ایندھن بنا کر سیاست کرتی ہیں۔ بصورت دیگر، سڈنی جیسے واقعات صرف خبر نہیں رہیں گے بلکہ آنے والے وقتوں کی ایک خطرناک علامت بن جائیں گے۔